تاریخ بادشاہی مسجد لاہور
شہر لاہور کی نمائندہ تاریخی‘ ثقافتی عمارات میں ایک اہم ترین عمارت بادشاہی مسجد ہے۔یہ مسجد اپنی تعمیر کے ابتدائی ایام میں شاہی مسجد کہلائی اور اس کے بعد اہل لاہور میں ایک طویل عرصہ جامع مسجد کے نام سے بھی جانی گئی۔ تعمیرات میں فنون لطیفہ کا ایک نایاب نمونہ ہونے کے ساتھ ساتھ یہ اپنی تعمیر کے بعد تین سو برس سے زائد عرصہ غیر متنازعہ طور پر نمازیوں کی تعداد کے حوالے سے دنیا کی سب سے بڑی مسجد مانی گئی۔ یہ مسجد 1084ھ بمطابق 1673ء میں مغل شہنشاہ اورنگززیب کے حکم پر ان کے رضاعی بھائی فدائی خان کوکہ نے قلعہ لاہور کے اکبری دروازے کے سامنے شمال مغربی سیدھ میں تعمیر کی۔ اس وقت اس کی تعمیر پر چھ لاکھ روپے کی خطیر رقم خرچ آئی اور مسجد کے روز مرہ اخراجات کے لئے ملتان کے خراج کو وقف کر دیا گیا تھا۔ مسجد کی جائے تعمیر کے بارے میں مؤرخین دو الگ الگ گروہوں میں تقسیم دکھائی دیتے ہیں۔ اول وہ مؤرخین ہیں جن کا کہنا ہے کہ مسجد کی تعمیر کے مقام پر ایک خالی میدان تھا‘ دوئم وہ مؤرخین ہیں جن کا یہ ماننا ہے کہ قلعے کی شمال مغربی سیدھ میں نور جہاں کے بھائی آصف جاہ کا ایک عظیم الشان محل تھا جو کہ اس نے اس وقت